منزلیں دُور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
Printable View
منزلیں دُور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
آج دل کھول کہ روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فرازؔؔ
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے
تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے
اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے
تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔؔ
دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ سے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیارے لگے