کار و بارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
Printable View
کار و بارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
ہے عبث سجدۂ جبیں تنہا
میرے ارحم! کبھی تو اِس دل میں
ہو ترا خوف جاگزیں تنہا
ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دئے
اجنبی تھا راستہ اور چل دئے
شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے
ناتواں دل کو لیا اور چل دئے
کس قدر جلدی میں تھے اہلِ جنوں
راستہ پوچھا نہ تھا اور چل دئے
اہلِ محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دئے
عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا، اور چل دئے
موت سے آگے بھی ہیں کچھ منزلیں
تھک گئے، سو دم لیا، اور چل دئے
زندگی کا کیا بھروسا جانِ من!
آ گیا امرِ قضا، اور چل دئے