ہوتی رہیں حدود میں غیروں کی بارشیں
ہم حسرتوں سے دیکھتے ابرِ رواں رہے
Printable View
ہوتی رہیں حدود میں غیروں کی بارشیں
ہم حسرتوں سے دیکھتے ابرِ رواں رہے
اپنی تکلفات کی ہوتی ہے چاشنی
اچھا ہے کچھ حجاب ابھی درمیاں رہے
مجھ کو مرے عیوب کی دیتے رہیں خبر
یا رب! مجھے نصیب دمِ دوستاں رہے
کتنی قیامتیں ہیں اشارے کی منتظر
دو چار دن بہت ہے جو باقی جہاں رہے
پتوار جب اٹھا لیا، موجوں کا خوف کیا
چاہے سفینہ پار لگے، درمیاں رہے
غم ہزاروں دِلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
بس گئے یار شہر میں جا کر
رہ گئے دشت میں ہمیں تنہا
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
تیری یادوں کا اِک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
وہ کسی بزم میں نہ آئے گا
گوشۂ دل کا وہ مکیں تنہا