جل بجھیں دردِ ہجر کی شمعیں گھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا طاقت و تابِ انتظار کسے
Printable View
جل بجھیں دردِ ہجر کی شمعیں گھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا طاقت و تابِ انتظار کسے
نقدِ جاں بھی تو نذر کر آئے اور ہم مفلسوں کے پاس تھا کیا
کون ہے اہلِ دل میں اتنا غنی اس قدر پاس طبعِ یار کسے
کاہشِ ذوق جستجو معلوم داغ ہے دل چراغ ہیں آنکھیں
ماتمِ شہرِ آرزو کیجیے فرصتِ نغمۂ قرار کسے
کون دارائے ملکِ عشق ہُوا کس کو جاگیر چشم و زلف ملی
"خونِ فرہاد، برسرِ فرہاد" قصرِ شیریں پہ اختیار کسے
حاصلِ مشرب مسیحائی سنگِ تحقیر و مرگِ رسوائی
قامت یار ہو کہ رفعتِ دار ان صلیبوں کا اعتبار کسے
٭٭٭
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے، دیدۂ بے خواب سے بھی
رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی
کچھ تو اس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بےتاب سے بھی
اے سمندر کی ہَوا تیرا کرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی
کچھ تو اُس حسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی