بھری محفل میں تنہا لگ رہا ہوں
کہ ہر سو اجنبیت کے ہیں سائے
Printable View
بھری محفل میں تنہا لگ رہا ہوں
کہ ہر سو اجنبیت کے ہیں سائے
ہم اتنی دور جا پہنچے ہیں یارو
کہ رستہ بھی نہ ہم کو ڈھونڈ پائے
مرا تفکر غبار سوچیں نکھارتا ہے
کہ میری آنکھوں میں سرخ شبنم اتارتا ہے
میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں
کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے
ڈرا رہا ہے مجھے وہ میرے پڑوسیوں سے
مرے جگر میں جو زہر خنجر اتارتا ہے
مرے محلے میں میرے بھائی جھگڑ رہے ہیں
اُدھر کوئی اپنے ترکشوں کو سنوارتا ہے
حصارِ ظلمت میں کب سے انساں بھٹک رہا ہے
کسی نئے دن کو دورِ حاضر پکارتا ہے
دمِ سرافیل ہے نقیبِ جہانِ نو ہے
وہ ایک جذبہ کہ سر دلوں میں ابھارتا ہے
نوید ہے اک جہانِ نو کی، اسی کے دم سے
’ہماری روحوں میں ارتقا پر سنوارتا ہے‘
نہ وہ مکیں رہے ہیں نہ ہی وہ مکاں رہے
میرا جنوں رہے بھی اگر تو کہاں رہے