ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
Printable View
ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
اور اب احساس ہوتا ہے تمہارے شہر میں آ کر
میں تنہا رات اور راتوں کی رانی چھوڑ آیا ہوں
اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سناٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں
ندیم اس شہر کی گلیوں محلوں اور سڑکوں پر
میں اپنی زندگی شاید بنانی چھوڑ آیا ہوں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں
ملے دوبارہ اگر ایسی زندگی تو نہیں
اچانک آنا تمہارا اور اس قدر چاہت
کہیں یہ دوست مری آخری خوشی تو نہیں
تو کیوں نہ تجھ سے تری گفتگو ہی کی جائے
ترے علاوہ یہاں میرا کوئی بھی تو نہیں
ہم اہل عشق بڑے وضع دار ہوتے ہیں
ہماری آنکھ میں دیکھو کہیں نمی تو نہیں
فصیلیں چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیم
کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں
مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
عشق میں اچھے برے سب ہی کا احسان لیا
تم فقط خواہش دل ہی نہیں اب ضد بھی ہو
دل میں رہتے ہو تو پھر دل میں تمہیں ٹھان لیا
وہ مرے گزرے ہوئے کل میں کہیں رہتا ہے
اس لیے دُور سے اس شخص کو پہچان لیا
ہاتھ اٹھایا تھا ستاروں کو پکڑنے کے لیے
چرخ نے چاند کو خنجر کی طرح تان لیا
آزمایا ہی نہیں دوسرے جذبوں کو ندیم
اس محبت کو ہی بس سب سے بڑا مان لیا
چلا گیا ہے وہ لیکن نشان اب بھی ہیں
کہ اس کے سوگ میں پسماندگان اب بھی ہیں
یہ اور بات کہ رہنا مرا گوارا نہیں
تمہارے شہر میں خالی مکان اب بھی ہیں
یہ عشق ہے کہ تجھے چھوڑ بھی نہیں سکتے
وگرنہ تجھ سے تو ہم بدگمان اب بھی ہیں
ہمیں تو پہلے بھی تم سے گلہ نہیں تھا کوئی
اور اب کے ہے بھی تو ہم بے زبان اب بھی ہیں
سہولت ہو اذیت ہو، تمہارے ساتھ رہنا ہے
کہ اب کوئی بھی صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے رابطے ہی اس قدر ہیں تم ہو اور بس تم
تمہیں سب سے محبت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
اور اب گھر بار جب ہم چھوڑ کر آ ہی چکے ہیں تو
تمہیں جتنی بھی نفرت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے پاؤں میں کیلیں اور آنکھوں سے لہو ٹپکے
ہماری جو بھی حالت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
تمہیں ہر صبح اور ہر شام ہے بس دیکھتے رہنا
تم اتنی خوبصورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا
وہ رشتہ ہم میں شاید جھوٹ کا تھا
کسی کا انتظار اب کے نہیں ہے
گئے وہ دن کہ کھڑکی دیکھتا تھا
محبت نے اکیلا کر دیا ہے
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا
مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی
تمہارے پاؤں بادل چومتا تھا
تمہاری ہی گلی کا واقعہ ہے
میں پہلی جب تنہا ہوا تھا
پھر اس کے بعد رستے مر گئے تھے
میں بس اک سانس لینے کو رکا تھا
قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے
میں بھی مر جاؤں یہ کردار اگر مر جائے
پھر خدایا! تجھے سورج کو بجھانا ہوگا
آخری شخص ہے بیدار اگر مر جائے
چھپنے والے تو کبھی سوچ کہ اک دن بالفرض
یہ مری خواہش دیدار اگر مر جائے
باندھ رکھی ہے قبیلے نے توقع جس سے
اور اچانک ہی وہ سردار اگر مر جائے
عین ممکن ہے کہ آ جائے مرا نام کہیں
شہرِ لیلیٰ کا گنہگار اگر مر جائے
منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے
اور وہ چاند بھی اس پار اگر مر جائے
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
تمہارے عشق میں جانے کہاں پہنچا ہوا ہوں
ہجومِ خواب سے گھبرا کے آنکھیں کھل گئی تھیں
پھر اس کے بعد میں تنہائی میں کھویا ہوا ہوں
گزارا تھا تمہارے شہر کی گلیوں میں بچپن
تمہارے شہر کی گلیوں میں ہی تنہا ہوا ہوں
نہ جانے کس گھڑی نام و نشاں مٹ جائے میرا
کھنڈر کی آخری دیوار پہ لکھا ہوا ہوں