لب و عارض، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں
Printable View
لب و عارض، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں
مسلمانوں کی بستی ہو کہ شہرِ کفر ہو، کچھ ہو
نقیبِ نور، مرغِ حق نوا ہے پچھلی راتوں میں
ہم نے کچھ درد پائے ہیں ایسے
ہوں کسی کے نہ اے خدا ویسے
بجھ گئیں حسرتوں کی شمعیں بھی
آندھیاں چل پڑی ہیں کچھ ایسے
تم سے رونق ہے دل کی دنیا میں
تم مجھے بھول جاؤ گے کیسے
ہم کو اپنی انا نے روک رکھا
ورنہ بِکتے ہیں مفت ہم جیسے
تیرے خم میں نشہ پرایا ہے
یار پیاسے بھلے ہیں اس مے سے
گردشِ خوں کو تیز کرتا ہے
گیت اٹھے جو پیار کی نے سے
ہم کو آتا ہے پیار کر لینا
آزمائش بھی یار کر لینا
پھر کبھی ذکرِ یار کر لینا
شکوۂ روزگار کر لینا