جس نے دیکھا نہ اسے ہوش رہا تن من کا
تیری آنکھیں ہیں کہ جادو ہیں کہ مے خانے ہیں
Printable View
جس نے دیکھا نہ اسے ہوش رہا تن من کا
تیری آنکھیں ہیں کہ جادو ہیں کہ مے خانے ہیں
دل میں وہ کچھ ہے کہ لفظوں میں ادا ہو نہ سکے
وہ سمندر، تو یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے ہیں
ایک وہ لوگ کہ صحراؤں کو رونق بخشیں
ایک ہم ہیں کہ بھرے شہر بھی ویرانے ہیں
وہ بھی دن تھے جو کیا کرتا تھا خود سے باتیں
آج آسی کے بڑے لوگوں سے یارانے ہیں
اس کی صورت تو لگتی ہے کچھ جانی پہچانی سی
لیکن اس کو کیا کہئے، وہ آنکھیں ہیں بیگانی سی
دنیا کے ہنگاموں میں جب یاد کسی کی آتی ہے
جانے کیوں جاں پر چھا جاتی ہے قدرے ویرانی سی
لوگ مشینی دنیا کے، انسان نہیں کل پرزے ہیں
تھل کی ریت، چناب کی موجیں رہ گئی ایک کہانی سی
آج کے دور کی بات کرو، یہ دور بڑا دکھیارا ہے
عارض و لب، گیسو کے سائے، باتیں ہوئیں پرانی سی
آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو
اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی
آسی جانے انجانے میں کیا غلطی کر بیٹھا ہے
اس کے لہجے سے ٹپکے ہے ایک خلش انجانی سی