نہ ملنے پر رنجیدہ تھے
اس سے مل کر بھی پچھتائے
Printable View
نہ ملنے پر رنجیدہ تھے
اس سے مل کر بھی پچھتائے
ان زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے
یہ بھی ہے اظہار کی صورت
ہونٹ ہلیں، آواز نہ آئے
مصلحتوں نے لب سی ڈالے
کوئی کچھ کیسے کہہ پائے
شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
لوگ قد آور ہو جائیں تو
عنقا ہو جاتے ہیں سائے
آسی اپنی سوچ کو روکو
تعزیروں کے موسم آئے
ایک پھول درجن بھر کانٹے
یار ہمارے تحفے لائے
میں ہی دیوانہ سہی لوگ تو فرزانے ہیں
کیوں حقائق میں ملا دیتے یہ افسانے ہیں
ایک لمحے کو نگہ اور طرف بھٹکی تھی
ورنہ ہم صرف تری دید کے دیوانے ہیں