چھوڑ! تیری بلا سے، مؤقف مرا
اے گراں گوش منصف! سنا فیصلہ
Printable View
چھوڑ! تیری بلا سے، مؤقف مرا
اے گراں گوش منصف! سنا فیصلہ
عقل گویم نگویم میں الجھی رہی
عشق نے کہہ دیا، ہو گیا فیصلہ
جا! تری یاد کو دل بدر کر دیا
تیرے شایاں جو تھا، کر دیا فیصلہ
ہر اک دل میں دردِ جدائی آن بسا ہے
گاؤں میں کوئی بیراگی آن بسا ہے
آنکھوں میں اندیشۂ فردا جھانک رہا ہے
چہروں پر کربِ آگاہی آن بسا ہے
کرچی کرچی ہوتا جاتا ہوں اندر سے
اِس بت خانے میں اک صوفی آن بسا ہے
وقت نے ایک عجب انداز میں کروٹ لی ہے
فردا کی بستی میں ماضی آن بسا ہے
میری اکثر باتیں سچی ہو جاتی ہیں
میرے اندر کوئی جوگی آن بسا ہے
آسی جی خاموشی آپ کی ٹوٹی کیسے؟
گوشۂ جاں میں ہجر کا پنچھی آن بسا ہے؟
مجھے محسوس کرنے والا اک دل چاہئے تھا
ستم پھر اُس کے شایان و مقابل چاہئے تھا