ایک بس چھت ہے اس کی یادوں کی
کوئی دیوار ہے نہ در باقی
Printable View
ایک بس چھت ہے اس کی یادوں کی
کوئی دیوار ہے نہ در باقی
شہر میں ان گنت مکان تو ہیں
کوئی گھر دار ہے نہ گھر باقی
ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے
نت نئی بات چھوڑ جاتی ہے
عشق چلتا ہے تا ابد لیکن
زندگی ساتھ چھوڑ جاتی ہے
دل بیابانی ساتھ رکھتا ہے
آنکھ برسات چھوڑ جاتی ہے
چاہ کی اک خصوصیت ہے کہ یہ
مستقل مات چھوڑ جاتی ہے
مرحلے اس طرح کے بھی ہیں کہ جب
ذات کو ذات چھوڑ جاتی ہے
ہجر کا کوئی نہ کوئی پہلو
ہر ملاقات چھوڑ جاتی ہے
چپ نہ رہو بے چین مسافر
بیت چلی ہے رین مسافر
اور نہیں تو دل کے بارے
کچھ تو کہیں گے نین مسافر