دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
خام ہے سجدۂجبیں تنہا
Printable View
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
خام ہے سجدۂجبیں تنہا
کاروبارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
میرے مولا کبھی تو اس دل میں
ہو ترا خوف جا گزیں تنہا
بڑی باریک نظر رکھتے ہیں اچھے پاگل
پاگلو! بات کی تہہ کو نہیں پہنچے؟ پاگل!
اپنے اطوار سے قطعاً نہیں لگتے پاگل
ہم نے دیکھے ہیں ترے شہر میں ایسے پاگل
کبھی تو اپنے ہی افکار سے خوف آتا ہے
کبھی ہم خود کو سمجھ لیتے ہیں جیسے پاگل
زندگی خواب ہے گر، خواب میں سونا کیا ہے
خواب در خواب کی تعبیر سجھائے پاگل
جس کو سوچے تو خِرد خود ہی پریشاں ہو جائے
اُس کے دیوانے کو ہم تو نہیں کہتے پاگل
چپ کرو یار، مجھے ڈر ہے تمہاری باتیں
اور لہجہ نہ کسی اور کو کر دے پاگل
شہر کے لوگ سمجھتے ہیں تجھی کو جھوٹا
اتنا سچ بول گیا ہے ارے پگلے! پاگل!