تیرے آنے کی رت سے پہلے ہی
کیاریوں میں گلاب آن بسے
Printable View
تیرے آنے کی رت سے پہلے ہی
کیاریوں میں گلاب آن بسے
آنکھ میں آ کے بس گئے آنسو
آنسوؤں میں سحاب آن بسے
اک بار ہی چاہت کی سزا کیوں نہیں دیتے
زندہ ہوں تو مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اک آگ جو بجھتی نہ بھڑکتی ہے زیادہ
اس آگ کو دامن کی ہوا کیوں نہیں دیتے
بچھڑے ہوئے لمحے بھی کبھی لوٹ کے آئے
بچھڑے ہوئے لمحوں کو بھلا کیوں نہیں دیتے
دریا میں پکارے چلے جاتے ہو ہمیشہ
صحراؤں میں ساون کو صدا کیوں نہیں دیتے
دیکھو نہ کئی یار بہت خوفزدہ ہیں
پل بھر کو چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
ِ
اس قدر مل گئی ہے غم کو جِلا
زندگی سے نہیں ہے کوئی گلہ
دھوپ سے تھا بھرا ہوا جیون
اک تیری چھاؤں میں سکون ملا
بے سبب بے قرار تھا موسم
بے سبب من میں کوئی پھول کھلا