تمام شب کی تھکن کو اتارنے کے لیے
ہماری آنکھ میں اب چاند نے نہانا ہے
Printable View
تمام شب کی تھکن کو اتارنے کے لیے
ہماری آنکھ میں اب چاند نے نہانا ہے
یہ چاہتوں کا نہیں نفرتوں کا قصہ ہے
ابھی تو نام کہانی میں تیرا آنا ہے
ابھی تو صبح کے آثار بھی نہیں جاگے
ابھی تو شور پرندوں نے بھی مچانا ہے
کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے
یہ ہجر ہے کہ محبت کا استعارا ہے
تم آؤ اور کسی روز اس کو لے جاؤ
بس ایک سانس ہے اس پر بھی حق تمہارا ہے
خدائے عشق گلہ تجھ سے ہے جہاں سے نہیں
مرے لہو میں محبت کو کیوں اتارا ہے
یہ سوچ لینا مجھے چھوڑنے سے پہلے تم
تمہارا عشق مرا آخری سہارا ہے
ابھی تو کھال ادھڑنی ہے اس تماشے میں
ابھی دھمال میں جوگی نے سانس ہارا ہے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
اب مرا نام مرے ساتھ مٹایا جائے
چاندنی کم ہے یہاں سب کے اجالے کے لیے
رات اندھیری ہے بہت چاند جلایا جائے
کرۂ ارض پہ اب نیند اتر آئی ہے
اِن پرندوں سے کہو شور مچایا جائے
سرد پانی میں نہیں ریت پہ مر جاؤں گا
اس سے کیا ہوگا اگر مجھ کو بچایا جائے
اب پرندوں کی نہیں پیڑ کی سازش ہے ندیم
تجھ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست
فیصلہ اس پہ میں نے چھوڑ دیا
جس طرف اس نے راستہ موڑا
خود کو اس سمت میں نے موڑ دیا
اب مرے ہونٹ بھی ہیں پتھر کے
جس کو چوما اسی کو توڑ دیا
اُدھر کنارِ لب و چشم ہیں عتاب وہی
سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی
وہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہی
سفید بال ہمارے وہی، خضاب وہی
ردائے ابر کو جو کشتِ بے گیاہ سے ہے
یہاں سروں سے ہے چھایا کو اجتناب وہی
فرازِ عرش سے نسبت رہی جسے ماجد
دل و نظر پہ اُترنے لگی کتاب وہی
دِہر فصیلِ ستم تا بہ آسمان بلند
ہمارا رخت اِدھر ایک چیونٹیوں سی کمند
نجانے کیوں ہمیں اپنی اُڑان یاد آئی
ہوئی پتنگ جہاں بھی زمین سے پیوند
ستم کی آنچ کہیں ہو ہمیں ہی تڑپائے
ہمیں ہی جیسے ودیعت ہوئی یہ خُوئے سپند
کمک کے باب میں ایسا ہے جیسے ایک ہمِیں
ندی میں ڈوبتے جسموں سے ہیں ضرورت مند
اِس آس پر کہ جمالِ شجر نکھر جائے
ہوا کو ضد ہے، مرا آشیاں بکھر جائے
سراب نکلا ہے ماجد ہر ایک خطۂ آب
مٹے ہیں فاصلے جب بھی کبھی بہ زورِ زقند
عقاب عقاب ملی ڈھیل وہ جھپٹنے کی
کہ جیسے طشتری فصلوں پہ، سر بہ سر جائے
نکلتی دیکھ کے بَونوں کی قامتیں ماجد
ہنر دکھانے کہاں کوئی با ہنر جائے
پھل اور پھُول کے جھڑنے سے کترانا کیا
لِیے کے لَوٹانے پر شور مچانا کیا
آدم زاد ہوں میں، مردُودِ خدا بھی ہوں
کھو کر خود فردوسِ سکوں، پچتانا کیا
ڈالنی کیا مشکل میں سماعت شاہوں کی
بول نہ جو سمجھا جائے، دُہرانا کیا
بہرِ ترّحم جسم سے کچھ منہیٰ بھی کرو
ہاتھ سلامت ہیں تو اُنہیں پَھیلانا کیا
سینکڑوں تَوجِیہیں ہیں جن کی خطاؤں پر
اپنے کئے پر شاہوں کا شرمانا کیا
بات سُجھاتی ہے تاریخ یہی اپنی
میدانوں میں اُتر کے پیٹھ دکھانا کیا
دیکھنے والوں کو ماجد! مت ہنسنے دو
پِٹ جائیں جو گال، اُنہیں سہلانا کیا
پہلے کیا تھے اور اب کیا کہلانے لگے ہیں
ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں
نِیل کا فرعونوں سے ہُوا جب سے سمجھوتہ
جتنے حقائق تھے سارے افسانے لگے ہیں
غاصب اُس کے ہاتھوں میں بارود تھما کر
لا وارث بچے کو لو بہلانے لگے ہیں
دھونس جما کر ہاں ریوڑ سے دور بھگا کر
بھیڑیے بھیڑ پہ اپنی دھاک بٹھانے لگے ہیں
وہ جب چاہیں میں اُن کا لقمہ بن جاؤں
جابر مجھ سے عہد نیا ٹھہرانے لگے ہیں