قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
Printable View
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
تصور لالہ و گل کا رہا کرتا ہے آنکھوں میں
قفس میں بھی سلام شوق کر لیتے ہیں گلشن کو
سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے
ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو
کمی ہو گی نہ بعد مرگ بھی بے تابیِ دل میں
قیامت تک رہے گا زلزلہ سا میرے مدفن کو
تبسّم میں نظر آنا ترے دنداں کا آفت ہے
چمکنے سے لگاتی ہے یہ بجلی آگ خرمن کو
یہ قصر یار کو پیغام دینا اے صبا میرا
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری دیواروں کے روزن کو
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری