امیر سے کوئی پوچھے تو، کس لئے اس نے
سفر کا خوف دلِ کارواں میں ڈال دیا
Printable View
امیر سے کوئی پوچھے تو، کس لئے اس نے
سفر کا خوف دلِ کارواں میں ڈال دیا
چلے تو پیشِ نظر تھی یقین کی جنت
سوادِ رہ نے کوئے بے اماں میں ڈال دیا
ترے خیال نے لفظوں کا روپ کیا دھارا
بلا کا سوز لبِ نغمہ خواں میں ڈال دیا
ہماری فکر کی تاریکیوں کا پرتو ہے
جو دستِ چرخ نے سیارگاں میں ڈال دیا
مرے کہے پہ کہ بہتر ہے آزما لینا
’مجھی کو اس نے کڑے امتحاں میں ڈال دیا‘
غم ہزاروں دلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
بس گئے یار شہر میں جا کر
رہ گئے دشت میں ہمِیں تنہا
تیری یادوں کا اک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
وہ کسی بزم میں نہ آئے گا
گوشۂ دل کا وہ مکیں تنہا