خود کو آئینے میں دیکھا میں نے
راز تکوین کا پایا میں نے
Printable View
خود کو آئینے میں دیکھا میں نے
راز تکوین کا پایا میں نے
کتنے تاروں پہ قیامت ٹوٹی
اپنا دامن جو نچوڑا میں نے
وہ تو اُس شام سرِ شہر پنہ
شہر کا درد لکھا تھا میں نے
رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر
راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے
یوں ہی اک عالمِ مجبوری میں
جبر کو جبر کہا تھا میں نے
لے کے پلکوں سے ستارے ٹانکے
قریۂ جاں کو اجالا میں نے
کسی کو عشق نے کوئے بتاں میں ڈال دیا
کسی کو عقل نے وہم و گماں میں ڈال دیا
فکر بے نطق ملی تھی مجھ کو
اس کو لہجے سے نوازا میں نے
کسی کی دید نے جادو جگا دئے کیا کیا
جمال و حسنِ بہاراں خزاں میں ڈال دیا
خدا کے پیشِ نظر تھی حفاظتِ آدم
زمیں کو لے کے کفِ آسماں میں ڈال دیا