شکوہ ہے کوئی تو اپنی ذات سے ہے
تدبیریں اپنی تقدیریں بھی اپنی
Printable View
شکوہ ہے کوئی تو اپنی ذات سے ہے
تدبیریں اپنی تقدیریں بھی اپنی
ہم خود اپنے ارمانوں کے قاتل ہیں
ہم پر لگتی ہیں تعزیریں بھی اپنی
ہم نے اپنی قدروں کو پامال کیا
خاک بسر ہیں اب توقیریں بھی اپنی
غیروں کی خلعت سے بڑھ کر سجتی ہیں
اپنے تن پر ہوں گر لیریں بھی اپنی
آسی جی غم کی اک اپنی لذت ہے
درد کی ہوتی ہیں تاثیریں بھی اپنی
اس شہر کا کیا جانئے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا
شعلہ سا وہ لپکا ہے کہستاں میں مکرر
خاشاک کا فرعون فنا ہو کے رہے گا
آباد بڑی دیر سے ہے شہرِ تمنا
اک روز درِ شہر بھی وا ہو کے رہے گا
اِس شہر پنہ کا ہمیں سایہ ہی بہت ہے
سودائے وطن سر پہ ردا ہو کے رہے گا
پھر دشمنِ ایماں نے نئی چال چلی ہے
کہتا ہے کہ وہ بندہ مرا ہو کے رہے گا