سنو، شاید اترنے کو ہے طوفاں
سمندر کا کنارا بولتا ہے
Printable View
سنو، شاید اترنے کو ہے طوفاں
سمندر کا کنارا بولتا ہے
یہ کیا کم ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں
یہاں کوئی تو مجھ سا بولتا ہے
پڑ گئی اوس کیسے پھولوں پر
رات محوِ بکا رہی ہو گی
وہ کسی طور بھی نہیں مائل
کوئی میری خطا رہی ہو گی
بات کرتا ہے یوں کہ بات نہ ہو
یہ بھی اس کی ادا رہی ہو گی
موت آساں گزر گئی آسی
میری ماں کی دعا رہی ہو گی
جھلملانے لگے ہیں پھر جگنو
تیرگی تلملا رہی ہو گی
بھیج ہی دوں چراغ اشکوں کے
رات بستی پہ چھا رہی ہو گی
سوچوں کی بھاری زنجیریں بھی اپنی
پلکوں پر لکھی تحریریں بھی اپنی
من پاگل جو ساری رات بناتا ہے
لے جاتا ہے دن تصویریں بھی اپنی