شہرِ یعقوب ہے ویران بڑی مدت سے
ایک یوسف ہے جسے ڈھونڈ کے لانا چاہوں
Printable View
شہرِ یعقوب ہے ویران بڑی مدت سے
ایک یوسف ہے جسے ڈھونڈ کے لانا چاہوں
سنا ہے شہر میں سب امن ہے، ہو گا!
یہ شورش جا بجا کچھ اور کہتی ہے
وہ جس کی مانگ اک بلوے میں اجڑی تھی
بہ اندازِ دعا کچھ اور کہتی ہے
گرانی در پئے پندار تھی اور اب
سرِ چاکِ قبا کچھ اور کہتی ہے
اگرچہ عام سے الفاظ ہیں لیکن
تری طرزِ ادا کچھ اور کہتی ہے
بھری محفل میں تنہا بولتا ہے
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے
وہ اپنی ذات کے زنداں کا قیدی
پسِ دیوار تنہا بولتا ہے
یہ ہونا تھا مآلِ گریہ بندی
سرِ مِژگاں ستارا بولتا ہے
مہِ کامل کو چُپ سی لگ گئی ہے
مرے گھر میں اندھیرا بولتا ہے
مرے افکار کی موجیں رواں ہیں
مرے لہجے میں دریا بولتا ہے