مہندی جچی کچھ ایسے تیرے نرم ہاتھ پر
اک کائنات دست حنائی لگی مجھے
Printable View
مہندی جچی کچھ ایسے تیرے نرم ہاتھ پر
اک کائنات دست حنائی لگی مجھے
پتی تیری پلک کا کنارا مجھے لگی
شاخ گلاب تیری کلائی لگی مجھے
دھڑکن میں تال تیرے خیالوں کی بج اٹھی
سانسوں میں تیری نغمہ سرائی لگی مجھے
حق میں اسی کے فیصلہ ہر شخص نے دیا
ہر شخص تک اسی کی رسائی لگی مجھے
لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
جانے اس دل کو یہ آداب کہاں سے آئے
اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا
کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے کہیں پا نہیں کہیں پر نہیں