کہیں سے ڈھونڈ کر آسی کو لاؤ
فضا میں کچھ گرانی آ گئی ہے
Printable View
کہیں سے ڈھونڈ کر آسی کو لاؤ
فضا میں کچھ گرانی آ گئی ہے
تیری پلکوں کے ستاروں میں سمانا چاہوں
اپنے اشکوں کو کسی طور چھپانا چاہوں
تا کوئی حسرتِ تعمیر نہ باقی رہ جائے
آشیاں شانۂ طوفاں پہ بنانا چاہوں
کچھ نہ کچھ ہو تو سہی اپنے لہو کا حاصل
شب کے ماتھے پہ شفق رنگ سجانا چاہوں
شدّتِ ضبط سے بے طرح بکھر جاتا ہوں
نغمۂ درد جو محفل میں سنانا چاہوں
سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے خود پر یارو
میں بھی کیا شخص ہوں روتوں کو ہنسانا چاہوں
دشتِ حسرت تو بسے گا ہی، اگر مر بھی گئیں
پھر تمناؤں کا اِک شہر بسانا چاہوں
فغانِ نا رسا کچھ اور کہتی ہے
صدا اندر صدا کچھ اور کہتی ہے
ارادوں کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
مگر زنجیرِ پا کچھ اور کہتی ہے
فقیہِ شہر کے اپنے حواشی ہیں
’مگر خلقِ خدا کچھ اور کہتی ہے‘