سب راستے دشمن ہوئے اشجار مخالف
تو میرا ہوا ہے تو ہوئے یار مخالف
Printable View
سب راستے دشمن ہوئے اشجار مخالف
تو میرا ہوا ہے تو ہوئے یار مخالف
بنیاد رکھوں کوئی تو بنیاد ہے دشمن
دیوار اٹھاتا ہوں تو دیوار مخالف
ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں اوزان کے پتھر
سنتے ہی نہیں ہیں میرے اشعار مخالف
میں عشق کو ہمدرد سمجھ بیٹھا تھا یارو
لگتے نہ تھے اس بحر کے آثار مخالف
دوں جان تو قربانی سمجھتا نہیں کوئی
گر تھوڑا سنبھلتا ہوں تو گھر بار مخالف
اس شہر کو سچ سننے کی عادت ہی نہیں ہے
لگتے ہیں سبھی کو میرے افکار مخالف
سنتے تھے کہ بس ہوتے ہیں اغیار مخالف
میرے تو نکل آئے ہیں سب یار مخالف
جو بات بھی ہو دل میں چھپاتا نہیں فرحتؔ
ہر روز بنا لیتا ہوں دو چار مخالف
باہر بھی اپنے جیسی خدائی لگی مجھے
ہر چیز میں تمھاری جدائی لگی مجھے
جیون میں آج تیرے لیے رو نہیں سکا
جیون میں آج رات پرائی لگی مجھے