وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب
Printable View
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب
فرازِ طور پہ لفظوں کو افتخار ملا
سوالِ شوخ سے بڑھ کر ملا جواب عجیب
گئے برس بھی یہاں آشتی کا قحط رہا
اور اب کے سال اٹھے خوف کے سحاب عجیب
رگِ حیات کہاں لامکاں کی بات کہاں
جنابِ شیخ نے پیدا کئے حجاب عجیب
غموں پر پھر جوانی آ گئی ہے
’طبیعت میں روانی آ گئی ہے‘
ابھی ’اَرِنِی ‘ بھی کہہ پایا نہ زاہد
صدائے ’لَن تَرَانِی ‘آ گئی ہے
نہ بن پائی کبھی جو بات ہم سے
وہ اب کچھ کچھ بنانی آ گئی ہے
ستارے ٹوٹنے گرنے لگے ہیں
یہ آفت ناگہانی آ گئی ہے
کہاں تک آہ و زاری کیجئے گا
وہ جو اک شے تھی آنی آ گئی ہے
جسے ہم نے چھپایا آپ سے بھی
وہ ہر لب پر کہانی آ گئی ہے