اور نہیں تو اس کو بھی بدنام کروں
لوگو آخر میں بھی کچھ تو کام کروں
Printable View
اور نہیں تو اس کو بھی بدنام کروں
لوگو آخر میں بھی کچھ تو کام کروں
توڑ دوں یا اس پاگل دل کو رام کروں
کچھ نہ کچھ اس قصے کا انجام کروں
تم بولو میں گیت لکھوں آوازوں پر
تم پلکیں جھپکو تا کہ میں شام کروں
وہ کیوں مجھ کو لکھ دے اپنی آزادی
میں کیوں اپنا جیون اس کے نام کروں
فن کی خاطر یہ تو کرنا پڑتا ہے
اپنے روز و شب وقف آلام کروں
زخم تحریر سلا لینے دو
یہ بھی جاگیر سلا لینے دو
شاید آ جائے گی پھر نیند ہمیں
نقش زنجیر سلا لینے دو
آنکھ جائے گی مگر پتلی میں
جو ہے تصویر سلا لینے دو
ہم کو موسم ہے یہی راس ہمیں
اپنی تقدیر سلا لینے دو
زلزلے چاہنے والو مجھ کو
شوق تعمیر سلا لینے دو