ہوا میں ایسے مجھ کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے
کہ جیسے ہاتھ سے کوئی غبارہ چھوڑ دیتا ہے
Printable View
ہوا میں ایسے مجھ کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے
کہ جیسے ہاتھ سے کوئی غبارہ چھوڑ دیتا ہے
میں اس کو ڈھونڈنے نکلوں تو برسوں خرچ ہوتے ہیں
اگر مل جائے وہ مجھ کو دوبارہ چھوڑ دیتا ہے
پھر اس کی یاد یوں آئی بدن کے خشک جنگل میں
کہ جیسے گھاس میں کوئی شرارا چھوڑ دیتا ہے
زمیں کو پہلے سورج دھوپ کا پیوند کرتا ہے
پھر اس کے بعد ستلج بھی کنارا چھوڑ دیتا ہے
محو ہنر ہوں سنگ یا تیشہ کوئی تو ہو
سر پھوڑنے کا آج بہانا کوئی تو ہو
سوچوں ہوں کٹ ہی جائے گی تنہا تمام عمر
لیکن تمام عمر، خدارا کوئی تو ہو
اک عمر بن ملے ہی کٹی اور ایک عمر
یہ سوچتے کٹی کہ بہانا کوئی تو ہو
تنہائی اس قدر ہے کہ عادت سی ہو گئی
ہر وقت کہتے رہنا ہمارا کوئی تو ہو
کچھ اس لیے بھی تم سے محبت ہے مجھ کو دوست
میرا کوئی نہیں ہے تمہارا کوئی تو ہو
کمرے میں آج میرے علاوہ کوئی نہیں
کمرے میں آج میرے علاوہ کوئی تو ہو
گھٹن اور حبس میں کچھ دم ابھی محفوظ ہیں
یہ ہے احسان اس کا ہم ابھی محفوظ ہیں
ہمارے ہاتھ گرچہ کٹ چکے ہیں جنگ میں
تمہارے عشق کے پرچم ابھی محفوظ ہیں
اگرچہ آنکھ کا سورج سوا نیزے پہ ہے
تمہاری یاد کے موسم ابھی محفوظ ہیں
ہماری ڈائری پڑھنا کبھی تم غور سے
کہانی کے لیے یہ غم ابھی محفوظ ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
ندیم اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہن
تو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہے
نہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
مری پہلی کمائی ہے محبت
محبت جو تمہیں میں دے چکا ہوں
مرے چاروں طرف اک شور سا ہے
مگر پھر بھی یہاں تنہا کھڑا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹے
مسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
میں جہاں پر تھا وہیں پر ہوں مگر جانے کیوں
روز اک دھول سی اڑتی ہے ترے خواب کے ساتھ
اپنی تصویر لگا دی ہے ترے خواب کے ساتھ
میں نے یوں عمر گزاری ہے ترے خواب کے ساتھ
شبنمی رات کی سوغات بھی اشکوں کی طرح
نوکِ مژگاں پہ سجالی ہے ترے خواب کے ساتھ
کیا خبر اب یہ سفر پاس ترے لے جائے
رات اک چڑیا سی اتری ہے ترے خواب کے ساتھ
ایسا لگتا ہے میں اب نیند میں بھی روتا ہوں
آج اک جھیل سی دیکھی ہے ترے خواب کے ساتھ
زبان دے کے عجب بے زبانی دیتا ہے
کوئی تو ہے جو مجھے رائیگانی دیتا ہے
یہ ریگزار ضروری نہیں سبھی کو ملیں
میاں یہ عشق ہے تازہ کہانی دیتا ہے
وہ سوکھی ٹہنیوں کو کاٹتا ہے پہلے پھر
مری جڑوں میں محبت کا پانی دیتا ہے
بنا تو لی ہے محبت کی سلطنت میں نے
نہ جانے کس کو خدا حکمرانی دیتا ہے
ہر ایک شخص یہی دیکھنے کو بیٹھا ہے
تمہارا ہجر کسے کیا نشانی دیتا ہے
وہ مجھ کو پھول تو تازہ ہی بھیجتا ہے ندیم
مگر کتاب ہمیشہ پرانی دیتا ہے
شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر
ختم ہو جائیں نہ تارے ٹوٹ کر
خواہشیں کچھ مر گئی ہیں نیند میں
خواب کچھ بکھرے ہمارے ٹوٹ کر
اک تمہارا عشق زندہ رہ گیا
مر گئے ہم لوگ سارے ٹوٹ کر
مجھ کو پھر اذنِ مسافت دے گئے
آسماں پر کچھ ستارے ٹوٹ کر
ہم سفالِ بے مرکب ہیں ندیم
گر رہے ہیں بت ہمارے ٹوٹ کر
بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
بچھڑ کے تجھ سے کہاں دور ہم کو جانا ہے
یہی کہ شام سے پہلے ہی لوٹ آنا ہے
تو میری آنکھ کو پہنا لہو لہو آنسو
کہ پانیوں سے تو رشتہ مرا پرانا ہے