ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
Printable View
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
پہلا شاعر میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
پہلے وہ تقدیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں
پہلے وہ تصویر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
آگے آگے بھاگنے کا ہے ایک سبب یہ بھی
پہلے پیدا تیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
جہاں بیٹھے ، صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اُسی دیوار کا ہے
عشوہ و غمزہ و رم بھول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے
اے روح قطرہ قطرہ پگھل آپ کے لیے
اے خامہ سیلِ خواب میں چل آپ کے لیے
دل گزارو کہ جاں نثار کرو
دور صدیوں کا یہ غبار کرو
پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ
محفل ِ وقت تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ