بعد اک عمر کی خموشی کے
مصرعے زور دار نکلے ہیں
Printable View
بعد اک عمر کی خموشی کے
مصرعے زور دار نکلے ہیں
ہم تو سمجھے تھے مست ہیں آسی
آپ بھی ہوشیار نکلے ہیں
کوئی کہتا تھا خوش ہیں آسی جی
وہ مگر دل فگار نکلے ہیں
دِن کے اثرات سرِ شب جو نمایاں ہوں گے
وصل کے خواب بھی آنکھوں سے گریزاں ہوں گے
ہاں مری یاد ستائے گی تجھے جانتا ہوں
تیری پلکوں پہ بھی کچھ اشک فروزاں ہوں گے
اے کہ لوہو کو مرے غازہ بنانے والو
یوں چھپانے سے یہ داغ اور نمایاں ہوں گے
وقت کے ہاتھ میں شمشیرِ حساب آئے گی
’نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے‘
وقت کے ہاتھ میں شمشیرِ حساب آئے گی
’نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے‘
گر جنوں طعمۂ منقارِ خِرَد یوں ہی رہا
کوئی فرحاں نہ رہے گا سبھی گریاں ہوں گے
دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کر دئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخ آہو کر دئے