ہم اسے سونپ چکے ہیں سب کچھ
اور وہ کہتا ہے خسارہ ہے ابھی
Printable View
ہم اسے سونپ چکے ہیں سب کچھ
اور وہ کہتا ہے خسارہ ہے ابھی
وصل کچھ دیر ٹھہر جانے دے
دل تیرے ہجر کا مارا ہے ابھی
دیکھ ٹلتی ہے مصیبت کیسے
میں نے مولا کو پکارا ہے ابھی
جانے کب آن گرے
زیر دیوار نہ جا
شان سے جاؤ تو ہے
یوں سرِ دار نہ جا
آ تیرا دکھ بانٹوں
شام بیمار نہ جا
کچھ نہ کچھ لڑ تو سہی
اس طرح ہار نہ جا
یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا فتور ہے
مجھے کہہ رہی تھی وہ عزم سے
مجھے تم کو پانا ضرور ہے
یہ میری شبیہ نہیں، سنو
یہ تو میری آنکھوں کا نور ہے