شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
Printable View
شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
جو ستارے بجھا دئے تو نے
گردشِ صبح و شام! کیا کیا تھے!
اے میری آرزوؤں کے صیاد، سوچ لے
دم سے انہی کے تیری ہے بیداد، سوچ لے
تجھ کو نہیں فغاں سے اگر آج واسطہ
کوئی سنے گا تیری نہ فریاد، سوچ لے
تیری نگہ نے بھی نہ وفا کی گواہی دی
باتیں بھی ہیں مرقّع اضداد، سوچ لے
بازو پہ جس کو اپنے بھروسا نہ ہو اسے
ملتی نہیں کہیں سے بھی امداد، سوچ لے
خود نہر کا وجود بھی شیریں جمال ہے
اتنا ہی، میرے دور کا فرہاد سوچ لے
ہمیں اپنی خبر باقی نہیں ہے
کسی کے تن پہ سر باقی نہیں ہے
کہانی کیا سناؤں آدمی کی
وہ توقیرِ بشر باقی نہیں ہے
در و دیوار بھی ہیں، لوگ بھی ہیں
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہے