ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا، تھک گئیں آندھیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
Printable View
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا، تھک گئیں آندھیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
لو، کسی کوئے بے نام میں جا کے وہ بے خبر کھو گیا
روزناموں میں چھپتی ہوئی سرخیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
آدمی کیا ہے، یہ جان لینا تو آسی بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و جاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
جانے چلی ہے کیسی ہوا سارے شہر میں
سوچیں ہوئیں سروں سے جدا سارے شہر میں
میری ہر ایک عرض ہے نا معتبر یہاں
اس کا ہر ایک حکم روا سارے شہر میں
سرگوشیاں ہیں اور جھکے سر ہیں، خوف ہے
سہمی ہوئی ہے خلقِ خدا سارے شہر میں
بدلی مری نگاہ کہ چہرے بدل گئے
کوئی بھی معتبر نہ رہا سارے شہر میں
پندار، قیصری پہ جو ضرب اک لگی تو پھر
کندھوں پہ کوئی سر نہ رہا سارے شہر میں
خاموش ہو گئے ہیں مرے سارے ہم نوا
زندہ ہے ایک میری صدا سارے شہر میں
ابھی نظر کے بچھائے ہوئے سراب میں ہوں
سفر نصیب، مگر منزلوں کے خواب میں ہوں