حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی خواب سہانے نہیں رہے
Printable View
حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی خواب سہانے نہیں رہے
ملنے کو آ ہی جاتا ہے ہر چند روز بعد
لگتا ہے اس کے پاس بہانے نہیں رہے
لرزش ہے ہاتھ میں تو نظر بھی ہے دُھندلی
پہلے سے اب وہ دل کے نشانے نہیں رہے
اُٹھتی نہیں ہیں شوق و تجسّس کے باوجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے
کمرے سب بھر گئے ہیں مسائل کی گرد سے
دل میں تیرے خیال کے خانے نہیں رہے
ِ جسم تپتے پتھروں پر روح صحراؤں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھاؤں میں تھی
ایک پر ہیبت سکوت مستقل آنکھوں میں تھا
ایک طغیانی مسلسل دل کے دریاؤں میں تھی
ہم ہی ہو گزرے ہیں خود اپنے شہر اجنبی
وہ جہاں بھی تھی وہاں اپنے شناساؤں میں تھی
اک صدا سی برف بن کر گر رہی تھی جسم پر
ایک زنجیر ہوا تھی جو میرے پاؤں میں تھی
دن مصیبت کے ٹل گئے ہوتے
اپنا رستہ بدل گئے ہوتے