جب سر پھوٹا بات کھلی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
بات نہ تھی جھٹلانے کی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
Printable View
جب سر پھوٹا بات کھلی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
بات نہ تھی جھٹلانے کی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
دیوانے ہیں خود اصنام بنا کر پوجا کرتے ہیں
صورت ہو چاہے کیسی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
پھول سے بچوں کو ہاتھوں میں سنگ اٹھائے دیکھا تو
اک بوڑھے نے خوب کہی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
ہم نے انا کے بت کو توڑا بھی پر اس کو کیا کہئے
ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی پتھر تو پتھر رہتا ہے
ایک زمانہ اس کے ساتھ گزارا سو مدہوشی میں
سپنا ٹوٹا، بات کھلی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
اس میں خون نہیں دوڑے گا، یہ رگ ہے دکھلاوے کی
مان بھی جاؤ آسی جی! پتھر تو پتھر رہتا ہے
بوڑھی سوچیں ملیں مجھ کو عزمِ جواں ڈھوندتے ڈھونڈتے
سر لئے پھر رہا ہوں میں سنگِ گراں ڈھوندتے ڈھونڈتے
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھوندتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی لگتا ہے، جیسے کہ، شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے