کہاں دل قید سے چھوٹا ہوا ہے
ابھی تک شہر سے روٹھا ہوا ہے
Printable View
کہاں دل قید سے چھوٹا ہوا ہے
ابھی تک شہر سے روٹھا ہوا ہے
ہمیں کیسے کہیں اس دل کو سچا
ہمارے سامنے جھوٹا ہوا ہے
کسی کا کچھ نہیں اپنا یہاں پر
یہ سب سامان ہی لوٹا ہوا ہے
تمہارے دل میں میری چاہتوں کا
کوئی تو بیج سا پھوٹا ہوا ہے
کسی کے نام لگ جائے بلا سے
یہ دل پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہے
ہم تجھے شہر میں یوں ڈھونڈتے ہیں
جس طرح لوگ سکوں ڈھونڈتے ہیں
ہم گو منصور نہیں ہیں لیکن
اس کا انداز جنوں ڈھونڈتے ہیں
جس سے ٹکراتی رہے پیشانی
تیرے دکھ میں وہ ستوں ڈھونڈتے ہیں
وہ تو کھویا ہے کہیں باطن میں
ہم جسے اپنے بروں ڈھونڈتے ہیں
ہم کہ ترسی ہوئی شریانیں ہیں
اور اک قطرہ خوں ڈھونڈتے ہیں