ایک زمانہ گزرا سورج نکلا تھا
مشرق سے اب اندھی صبحیں اٹھتی ہیں
Printable View
ایک زمانہ گزرا سورج نکلا تھا
مشرق سے اب اندھی صبحیں اٹھتی ہیں
غیر مقابل ہوں تو ہم بھی لڑ جائیں
ہم پر اپنوں کی تلواریں اٹھتی ہیں
لو آسی جی، پیار کے سوتے خشک ہوئے
پریم پریت کی ساری رسمیں اٹھتی ہیں
رات، اداسی، چاند ستمگر خاموشی
نیند سے بوجھل دیوار و در، خاموشی
سناٹے کا خوف، سسکتی آوازیں
سب آوازوں کا پس منظر خاموشی
خواب جزیرہ ہولے ہولے ڈوب گیا
اوڑھ چکا بے رحم سمندر خاموشی
میں نے کتنے ہونٹوں کو آوازیں دیں
لیکن میری ذات کے اندر خاموشی
آنسو، تارا، جگنو، شعلہ، بے تابی
سوچ سمندر کے ساحل پر خاموشی
بستر کانٹے جلتی آنکھیں آخرِ شب
مرتے ہیں پلکوں پر اختر، خاموشی
آسی کو کب کچھ کہنا راس آیا ہے
اپنا لی اس نے تنگ آ کر خاموشی