رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
Printable View
رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
ایک اک کر کے حوادث بڑی ترتیب کے ساتھ
مرحلہ وار میرا ساتھ نِبھانے آئے
نقش پختہ تھا تیرے غم کا وگرنہ موسم
بارہا دل سے میرے اس کو مٹانے آئے
دن بھی نہ بیتا رات نہ بیتی
تیری ایک بھی بات نہ بیتی
ٹھہر گئی آ کر آنکھوں میں
تیرے بن برسات نہ بیتی
آنسو رکے نا ان نینوں سے
تاروں کی بارات نہ بیتی
جم سی گئی احساس کے اندر
جیون بیتا مات نہ بیتی
بیت گئے ان گنت زمانے
ایک تمہاری ذات نہ بیتی
پھر تیرا ذکر دل سنبھال گیا
ایک ہی پل میں سب ملال گیا
ہو لیے ہم بھی اس طرف جاناں
جس طرف بھی تیرا خیال گیا