خدا کے واسطے کر لو معاملہ دل کا
کہ گھر کے گھر ہی میں ہو جائے فیصلہ دل کا
Printable View
خدا کے واسطے کر لو معاملہ دل کا
کہ گھر کے گھر ہی میں ہو جائے فیصلہ دل کا
ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
گر فرشتہ وش ہوا کوئی تو کیا
آدمیت چاہئے انسان میں
منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں
موقوف نہیں دام و قفس پر ہی اسیری
ہر غم میں گرفتار ہوں ہر فکر میں پابند
یہ سمجھے تھے ہم ایک چرکہ ہے دل پر
دبا کر جو دیکھا ۔ تو ناسور نکلا
دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا
اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا
سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چھپُا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
تاریکیِ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے
ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے
میرے مطلب سے کیا غرض مطلب
آپ اپنا تو مدّعا کہیے
کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں
یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے
ہم تو جاتے ہیں، ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
حشر میں لطف ہو جب ان سے ہوں دو دو باتیں
وہ کہیں، کون ہو تم؟ ہم کہیں، مرنے والے
تم بھی چوم لو ، بے ساختہ پیار آ جائے
میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانہ دل کا
لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دلِ بے مُدّعا دیا تو نے
جی میں آئے تو کبھی فاتحہ دلوا دینا
آخری وقت ہے ہم تم سے جدا ہوتے ہیں
نہ کہوں گا نہ کہوں گا نہ کہوں گا ہر گز
جا کے اُس بزم میں شامت میری آئی کیوں *کر
کس طرح جان دینے کے اقرار سے پھروں
میری زبان ہے یہ تمہاری زباں نہیں
نشتر سے کم نہیں ہے کچھ چھیڑ آرزو کی
عاشق مزاج کیوں کر ارمان کر کے بھولے
یہ نہ پوچھو کیوں یہ حالت ہو گئی
خود بدولت کی بدولت ہو گئی
سُن سُن کے تیرے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں*کچھ نہیں*کہتا
آپ کیوں*خاک میں*ملاتے ہیں
ہم مصیبت طلب ملیں گے آپ
ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
پوچھتے کیا ہو کیوں لگائی دیر
اک نئے آدمی سے ملنا تھا
طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں* تا حشر اُن کے آنے کا
جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر یہ نہیں میرے ہاتھ آنے کا
دلوں* پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو
اور میں جان سے بیزار یہ کیا
نظر میں ہے تیری کبریائی، سما گئی تیری خود نمائی
اگر چہ دیکھی بہت خدائی ، مگر نہ تیرا جواب دیکھا
غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا
پھر دیکھتے ہیں عیش آدمی کا
بنتا جو فلک میر خوشی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
آنکھیں کھلیہوئی پس مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالب دیدار مرگیا