-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے
جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے
مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سُرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے
اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ
مَرمَر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے
کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھّر لگا مجھے
آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی
مدھّم تھا جو بھی نقش، اُجاگر لگا مجھے
یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی
سورج اگر ہے، کرنوں کی جھالر لگا مجھے
صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ
گلشن کو لَوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے
میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
کشتیِ زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں
موج در موج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں
ہم سفر چھوٹ گئے، راہنما روٹھ گئے
یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں
تیرگی ٹوٹ پڑی، دور سے بادل گرجا
بجھ گئی سہم کے قندیلِ رخِ یار یہاں
کتنے طوفان اٹھے، کتنے ستارے ٹوٹے
پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں
میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئے گی بہار
میں اگر مر بھی گیا وادیِ پُر خار یہاں
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر
دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر
آج تک اس کے تعاقب میں بگولے ہیں رواں
ابر کا ٹکڑا کبھی برسا تھا ریگستان پر
میں جو پربت پر چڑھا، وہ اور اونچا ہو گیا
آسماں جھکتا نظر آیا مجھے میدان پر
کمرے خالی ہو گئے سایوں سے آنگن بھر گیا
ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر
اب یہاں کوئی نہیں ہے کس سے باتیں کیجیے
یہ مگر چپ چاپ سی تصویر آتش دان پر
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
بس چلے تو اپنی عریانی کو اس سے ڈھانپ لوں
نیلی چادر سی تنی ہے جو کھلے میدان پر
وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیبؔ
یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشندان پر
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
تو نے کیا کیا نہ اے زندگی، دشت و در میں پھِرایا مجھے
اب تو اپنے در و بام بھی جانتے ہیں پرایا مجھے
اور بھی کچھ بھڑکنے لگا میرے سینے کا آتش کدہ
راس تجھ بن نہ آیا کبھی سبز پیڑوں کا سایا مجھے
ان نئی کونپلوں سے مرا کیا کوئی بھی تعلّق نہ تھا؟
شاخ سے توڑ کر، اے صبا!، خاک میں کیوں ملایا مجھے
درد کا دیپ جلتا رہا، دل کا سونا پگھلتا رہا
ایک ڈوبے ہوئے چاند نے رات بھر خوں رلایا مجھے
اب مرے راستے میں کہیں خوفِ صحرا بھی حائل نہیں
خشک پتّے نے آوارگی کا سلیقہ سکھایا مجھے
مدّتوں روئے گُل کی جھلک کو ترستا رہا میں شکیبؔ
ان جو آئی بہار اس نے صحنِ چمن میں نہ پایا مجھے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
جاتی ہے دھوپ اُجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضِد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے
دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے
فوّارے کی طرح نہ اُگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے
اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
آ کے پتھّر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اُس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گِرے
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گِرے
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں پہ گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گِرے
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستراے مرے گھر ٹوٹ کے بیکار گِرے
کیا ہَوا ہاتھ میں تلوار لئے پھرتی ہے
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گِرے
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گِرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار گِرے
ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے، ناچار گِرے
کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گِرے
ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گِرے
وہ تجلّی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر
آئینے ٹوٹ گئے، آئینہ بردار گِرے
دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سو کو کہ یہ دستار گِرے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
پاداش
کبھی اس سبک روندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمہیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھر درے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم رسلیے مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانو سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں
تو کیوں چیختے ہو؟
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
انفرادیت پرست
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے
موج بِپھرے تو بہا لے جائے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے
سامنے ہو، پہ کنارا نہ ملے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
کُند تلوار قلم کر ڈالے
سرد شعلہ ہی بھسَم کر ڈالے
زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
اندمال
شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
بادِ مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپردِ خزاں کر دئیے
بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں
غیر ممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی انگلیاں
’ان گنت‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کا کارواں
ان گنت تھے مرے زخم دل
ٹوٹی کرنوں، بکھرتے ہوئے زرد پتوں، برستی ہوئی بوندیوں کی طرح
اور مرہم بھی ناپید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زاد کا خندۂ زیر لب
زخمِ دل مندمل ہو گئے سب کے سب
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
لرز تا دیپ
دودِ شب کا سرد ہاتھ
آسماں کے خیمۂ زنگار کی
آخری قندیل گُل کرنے بڑھا
اور کومل چاندنی
ایک دربستہ گھروندے سے پرے
مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی
بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر
اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کیلئے
اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا
اور آنکھیں موند لیں
اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے
میں نے پوچھا
ہم نفس
اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
گریز پا
دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح پینے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گِرے
ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دئے
جس طرح شورِ جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
خزاں رسیدہ
خزاں رسدوہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھلا کے دم لے گی
ازل سے سۂہ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوشبو رچا کے دم لے گی
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
دلاسہ
ہم ملے کب تھے
جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں
ہات میں ہو نرم ہات
لب ہوں لب پر مہرباں
اس پہ کیا موقوف ہے ربطِ بہم کی داستاں
رہگزارِ خاک پر
دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں
لاکھ آتی ہوں نظر
اپنے سر جوڑے ہوئے
درمیاں ان کے مگر
کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر
ہم ملے کب تھے
جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
چھت کی تلاش
یہاں درخت کے اوپر اُگا ہوا ہے درخت
زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)
ہوا کا کال پڑا ہے (نمی بھی عام نہیں)
سمندروں کو بِلو کر، فضاؤں کو مَتھ کر
جنم دئے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے
جھپٹ لیا ہے انھیں یوں دراز شاخوں نے
کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی
جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں
نہ تیرگی سے مفر ہے، نہ روشنی کا سوال
زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں، فضا میں ہات بلد
نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
سفیر
میں روشنی کا مُغنّی کرن کرن کا سفیر
وہ سیلِ مہ سے کہ رودِ شرار سے آئے
وہ جامِ مے سے کہ چشمِ نگار سے آئے
وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے
وہ دستِ گل سے کہ پائے فگار سے آئے
وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے
وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے
وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے
جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر
وہیں کھلیں مری بانہیں، وہیں کٹے زنجیر
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
شہرِ گُل
کچھ نہ تھا شوخیِ رفتارِ صبا کا حاصل
نکہتِ گل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے
چپمپئ بیل کے سیال نمو پر قدغن
سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے
حلقۂ برق میں ارباب گلستاں محبوس
دم بخود راہ گزاروں پہ کڑے پہرے تھے
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں
دو گھڑی کیلئے گھر گھر میں چراغاں سا ہوا
جیسے ضو کاریِ انجم پہ کوئی قید نہیں
بند کلیوں نے تراشیدہ لبوں کو کھولا
پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں
گھنگریاں باندھ کے پیروں میں صبا اٹھلائی
جیسے اندازِ ترنّم پہ کوئی قید نہیں
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
دعوتِ فکر
کس طرح ریت کے سمندر میں
کشتیِ زیست ہے رواں، سوچو
سن کے بادِ صبا کی سرگوشی
کیوں لرزتی ہیں پتیاں۔۔، سوچو
پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے
آئینہ ساز کی دوکاں، سوچو
اصل سر چشمۂ وفا کیا ہے
وجہِ بے مہریِ بتاں سوچو
ذوقِ رعمیر کیوں نہیں مٹتا
کیوں اُجڑتی ہیں بستیاں سوچو
فکر سقراط ہے کہ زہر کا گھونٹ
باعثِ عمرِ جاوداں سوچو
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بت ربط داستاں سوچو
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
نئی کرن
جہاں پناہ سسکنے لگی چراغ کی لو
شعاعِ تازہ سے چھلنی ہے سینۂ ظلمات
بلند بام ہراسان ہیں رہ نشینوں سے
اک ایسے موڑ پہ آئی ہے گردشِ حالات
جسے بھی دیکھیے لب پر سجائے پھرتا ہے
نرالے دور کا قصہ، اچھوتے دور کی بات
جنہیں تھا حکمِ خموشی وہی پکار اٹھے
ہمیں بھی اذنِ تبسم ہمیں بھی اذنِ حیات
طلب ہوئی ہے جنہیں بے کراں اجالوں کی
سرابِ نجم و قمر سے بہل نہیں سکتے
نئی کرن سے اندھیروں میں برہمی ہی سہی
نئی کرن کو اندھیرے نگل نہیں سکتے
جہاں پناہ جمال سحر کی جوئے رواں
افق افق کو درخشاں بنا کے دم لے گی
پلک پلک سے مٹائے گی داغ اشکوں کے
نظر نظر کو تبسم سکھا کے دم لے گی
خزاں رسیدہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھِلا کے دم لے گی
ازل سے سینۂ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوسشبو رچا کے دم لے گی
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
عکس اور میں
آبِ جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
دہکے عارض۔۔۔آئینے میں تیز شعلوں کی ضیا
احمریں لب۔۔۔۔زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا
تیکھے ابرو۔۔۔کالی راتوں کا ملائم ڈھیر سا
بہتی افشاں۔۔۔۔جگمگاتی مشعلوں کا قافلہ
گہری آنکھیں۔۔۔۔دور تک منظر سہانے خواب کا
آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
نقرئی پانی کے جو آنچل میں جھلمل کر رہی تھی، کون تھی
حور تھی تخئیل کے رمنوں کی یا وہ جل پری تھی، کون تھی۔۔۔؟
اس پہیلی کی گرہ کھلنے سے پہلے ہی نگاہوں پر مری
ریشمیں قدموں کی آہٹ سے خلا کی سبز چلمن آ گری
آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
خداوندان جمہورسے
عروسِ صبح سے آفاق ہمکنارسہی
شکستِ سلسلۂ قیدِ انتظار سہی
نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ
شفق کا رنگ شہیدوں کی یاد گار سہی
بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چن دیجے
کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائیدار سہی
ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی
گنے جو زخم رگ جاں، شریک جشن حیات
پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی
چمن میں رنگ طرب کی کوئی کمی نہ رہے
ہمارا خون جگر غازۂ بہار سہی
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
لہو ترنگ
جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں
پہلی آواز
ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی
ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلا لیں گے
دوسری آواز
جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا
انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو
بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں
زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو
ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا
سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو
محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے
ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
لہو ترنگ
جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں
پہلی آواز
ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی
ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلا لیں گے
دوسری آواز
جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا
انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو
بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں
زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو
ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا
سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو
محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے
ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
پہلی آواز
یہ غم نہیں کہ سرِ دار آئے جاتے ہیں
ہمیں خوشی ہے وطن کو جگائے جاتے ہیں
ہمارے بعد سہی، رات ڈھل تو جائے گی
دلوں میں شمعِ جنوں تو جلائے جاتے ہیں
ہمارے نقشِ قدم دیں گے منزلوں کا سُراغ
ہمیں شکست نہ ہوگی بتائے جاتے ہیں
جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں
سدا بہار شگوفے کھِلائے جاتے ہیں
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
زاویے
رات تھی میں تھا اور اک میری سوچ کا جال
پاس سے گزرے تین مسافر دھیمی چال
پہلا بولا مت پوچھو اس کا احوال
دیکھ لو تن پر خون کی فرغل، خون کی شال
دوسرا بولا۔۔۔۔اور ہی کچھ ہے میرا خیال
یہ تو خزاں کا چاند ہے گھائل غم سے نڈھال
تیسرا بولا۔۔۔بس یوں سمجھو اس کی مثال
اندھیارے کے بن میں جیسے شب کا غزال
ان کی روح تھی خود کالی پیلی اور لال
میرا وجود ہے ورنہ اب تک ایک سوال
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
جاگتی آنکھیں
کس کو گماں تھا اک نقطے کی آغوش اتنی کشادہ ہوگی
جس میں انت سرے تک رنگ بھری پہنائی
گھل مل کر رہ جائے گی
کس کو خبر تھی، انجانے پن کی گرد لبادہ ہوگی
جس کے صدیوں کی سر بستہ دانائی
اپنی چھب دکھلائے گی
کس کو یقیں تھا، دور کے لمس کی تاثیر اتنی زیادہ ہوگی
جس سے سنگیں پیکر میں جامِد رعنائی
روح کی ندرت پائے گی
ایسی انہونی باتوں میں سچ کی کرنیں ٹانک چکا ہوں
میں ان جاگتی آنکھوں کے گمبھیر طلسم میں جھانک چکا ہوں
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
یاد
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئنہا گر کے پاش پاش ہوا
اور نی س نکیش کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چری گئی
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
یاد
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئنہا گر کے پاش پاش ہوا
اور نی س نکیش کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چری گئی
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
جشنِ عید
سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروئے، کسی نے خار چُنے
بنامِ اذنِ تکلّم، بنامِ جبرِ سکوت
کسی نے ہونٹ چبائے، کسی نے گیت بُنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چِنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطورِ خاص مگر قلبِ داغدار جلے
عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط
کسی نے بادہ و ساغر، کسی نے اشک پئے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاکِ گریباں، کسی نے زخم سئے
ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھِلے پائے
کسی کو ساغرِ احساس چکنا چور ملا
بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول، کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے خداوندِ کوثر و تسنیم
کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
کسی کا قرب اگر قربِٕ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِ مظلوم صدا رکھتی ہے
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
ہائے وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہائے وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
اب انھیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اس گلبدن کی بوئے قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
چاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
مجھ کو آمادۂ سفر نہ کرو
راستے پُر خطر نہ ہو جائیں
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
کمتر نہ جانیں لوگ اُسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیب
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
-
Re: Shakeeb Jalali's Collection
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
ہم نے جسے آزاد کیا حلقۂ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا
گونجتے ہیں شکیب آنکھوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت