-
Re: Munir Niazi's Collection
ساعت ہجراں ہے اب کیسےجہانوں میں رہوں
کن علاقوں میں بسوں میں کن مکانوں میں رہوں
ایک دشتِ لامکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں
علم ہے جو میرے پاس کس جگہ افشا کروں
یا ابد تک اس خبر کے راز دانوں میں رہوں
وصل کی شام سیہ اس سے پرے آبادیاں
خواب دائم ہے یہی میں جن زمانوں میں رہوں
یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیر
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
محفل آرا تھے مگر پھر بھی کم نما ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
منتظر جیسے تھے در شہرِ فراق آثار کے
اک ذرا دستک ہوئی در و بام وا ہوتے گئے
حرف پردہ پوش تھے اظہارِ دل کے باب میں
حرف جتنے شہر میں تھے حرفِ لا ہوتے گئے
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
کسی خوشی کے سراغ جیسا
وہ رخ ہے ہستی کے باغ جیسا
بہت سے پروں میں نور جیسے
حجابِ شب میں چراغ جیسا
خیال جاتے ہوئے دنوں کا
ہے گم حقیقت کے داغ جیسا
اثر ہے اس کی نظر کا مجھ پر
شراب گل کے ایاغ جیسا
منیر تنگی میں خواب آیا
کھلی زمیں کے فراغ جیسا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
سفر میں مسلسل ہم کہیں آباد بھی ہو ں گے
ہوئے ناشاد جو اتنے تو ہم دل شاد بھی ہوں گے
زمانے کو برا کہتے نہیں ہم ہی زمانہ ہیں
کہ ہم جو صید لگتے ہیں ہمیں صیاد بھی ہیں
بھلا بیٹھے ہیں وہ ہر بات اس گزرے زمانے کی
مگر قصے کچھ اس موسم کے ان کو یاد بھی ہوں گے
منیر افکار تیرے جو یہاں برباد پھرتے ہیں
کسی آتے سمے کے شہر کی بنیاد ہوں گے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم
ہے خوشی بھی اس جگہ
اے میری خوئے الم
کیا وہاں ہے بھی کوئی
اے رہِ ملک عدم
رونقِ اصنام ہے
خم ہوئے غم کے علم
یہ حقیقت ہے منیر
خواب میں رہتے ہیں ہم
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
میری ساری عمر کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر بسر اس نے کیا
میں بت کمزور تھا س ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انھیں بس اک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انھیں بس اک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں
اتنا خیال اُس کا ہمیں اس برس نہیں
دیکھو گل بہار اثر دشت شام میں
دیوار و در کوئی بھی کہیں پیش و پس نہیں
آیا نہیں یقیں بہت دیر تک ہمیں
اپنے ہی گھر کا در ہے یہ بابِ قفس نہیں
ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
آئے گی پھر بہار اسی شہر میں منیر
تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
جو مجھے بھلا دیں گے میں انھیں بھلا دوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا
دیکھتا ہوں سب کی شکلیں سن رہا ہوں سب کی باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چکا دوں گا
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیاؤں کی چار سو چلا دوں گا
بے مثال قریوں کے بے کنار باغوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں دکھا دوں گا
میں منیر جاؤں گا اک دن اسے ملنے
اس کے در پہ جا کے میں ایک دن صدا دوں گا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
ہے میرے گرد کثرتِ شہر جفا پرست
تنہا ہوں اس لیے ہوں میں اتنا انا پرست
صحن بہار گل میں کفِ گل فروش
شامِ وصالِ یار میں دستِ حنا پرست
تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دھن میں بہت انتہا پرست
بامِ بلندِ یار پہ خاموشیاں سی ہیں
اس وقت وہ کہاں ہے وہ یارِ ہوا پرست
گمراہیوں کا شکوہ نہ کر اب تو اے منیر
تو ہی تھا سب سے بڑھ کر یہاں رہنما پرست
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
ایک نگر کے نقش بھلا دوں ایک نگر ایجاد کروں
ایک طرف خاموشی کر دوں ایک طرف آباد کروں
منزل شب جب طے کرنی ہے اپنے اکیلے دم سے ہی
کس لیے اس جگہ پہ رک کر دن اپنا برباد کروں
بہت قدیم کا نام ہے کوئی ابر و ہوا کے طوفاں میں
نام جو میں اب بھول چکا ہوں کیسے اس کو یاد کروں
جا کے سنوں آثارِ چمن میں سائیں سائیں شا خوں کی
خالی محل کے برجوں سے دیدارِ برق و باد کروں
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحن سحر کے رنگوں میں
یا پھر کامِ نظم جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
خاکِ میداں کی حدتوں میں سفر
جیسے حیرت کی وسعتوں میں سفر
خوب لگتا ہے اس کے ساتھ مجھے
وصل کی شب کی خواہشوں میں سفر
اس نگر میں قیام ایسا ہے
جیسے بے انت پانیوں میں سفر
دیر تک سیر شہر خوباں کی
دور تک دل کے موسموں میں سفر
بیٹھے بیٹھے تھک سے گئے
کر کے دیکھیں گے ان دنوں میں سفر
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی صبحوں، شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا
ہر مکاں اک راز تھا اپنے مکینوں کے سبب
رشتہ میرا اور جن کے درمیاں کوئی نہ تھا
تھا وہاں موجود کوئی بام و در کے اس طرف
خامشی تھی اس قدر جیسے وہاں کوئی نہ تھا
کوکتی تھی باسنری چاروں دشاؤں میں منیر
پر نگر میں اس صدا کا راز داں کوئی نہ تھا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت سی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
زندہ رہیں تو کیا جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود باش میں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا خوابِ ہستی میں
خواب معدوم، حسرتیں باقی
بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئی ان کی رنگتیں باقی
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی
وہ تو آ کے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر، جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
درِ فصیل کھلا، یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں، کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی، عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیر دیکھ شجر، چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر، شب بہار میں ہوں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی
کون تھا تو کہ پھر نہ دیکھا تجھے
مٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی
خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہ شب تاب کے نکلتے ہی
تو بھی جیسے بدل سا جاتا ے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی
خون سا لگ گیا ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اُسے آخر مکانِ خاک میں لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یہ کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
لازم نہیں کہ اُس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے، وہی اُس کا بھی حال ہو
کچھ اور دل گداز ہوں اس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پر ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں کہ کچھ دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہوں
رہتے ہیں آج جس میں جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گزشتہ کا خواب و خیال ہو
سب شور شہر خاک کا ہے قربِ آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا محال ہو
معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اس کی جیسے فنا کی مثال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر
ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن کیا چیز رات کیا ہے
فراقَ خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ اُن کا اور میرا ساتھ کیا ہے
گماں ہے کیا اس صنم کدے پر
خیالِ مرگ و حیات کیا ہے
فغاں ہے کس کے لیے دلوں میں
خروشِ دریائے ذات کیا ہے
فلک ہے کیوں قید مستقل میں
زمیں پہ حرفِ نجات کیوں ہے
ہے کون کس کے لیے پریشان
پتہ تو دے اصل بات کیا ہے
ہے لمس کیوں رائیگاں ہمیشہ
فنا میں خوفِ ثبات کیا ہے
منیر اس شہرِ غم زدہ پر
ترا یہ سحرِ نشاط کیا ہے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
خمارِ شب میں اُسے سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو، وہ کام کر بیٹھا
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر
وہ بھولپن میں سخن دل عام کر بیٹھا
جو سو کے اٹھا تو راستہ اجاڑ لگتا تھا
پہنچنا تھا مجھے منزل پہ، شام کر بیٹھا
تھکن سفر کی بدن شل کر گئی ہے منیر
برا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
ابھی مجھے اک صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک ،مسافت ختم ہوئی، اک سفر ابھی کرنا ہے
گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے
ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے
یہ تو آغاز ہے جیسے اُس پہنائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھر جانا ہے
جیسے زر کی پیلاہٹ میں موجِ خون اترتی ہے
زہرِ زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نگاہِ آئینہ معلوم، عکس نامعلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو
زمیں کے گرد بھی پانی، زمیں کی تہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
میں اس خیال سے جاتا نہیں وطن کی طرف
کہ مجھ کو دیکھ کے اُس بت کا جی برا ہی نہ ہو
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اُس شوخ کو پتا ہیں نہ ہو
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے
اک نظر بندی کا عالم تھی نگر کی زندگی
قد میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے
ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جانِ جہاں
خواب تھے، ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے
وہ چمکنا برق کا دشت و درو دیوار پر
سار ے منظر ایک پل س کے اجالوں میں رہے
کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقتِ مرگ
آخری دم یار اپنے ک خیالوں میں رہے
دور تک مسکن تھے بن اُن کی صداؤں کے منیر
دیر تک ان ناریوں کے غم شوالوں میں رہے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
جمال یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا
کسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا
تمام اجڑے خرابے حسیں نہیں ہوتے
ہر اک پرانا مکاں قصر جم نہیں ہوتا
تمام عمر رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا دم نہیں ہوتا
یہی سزا ہے مری اب جو میں اکیلا ہوں
کہ میرا سر تیرے آگے بھی خم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
ایک تیز رعد جیسے صدا ہر مکان میں
لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
گم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیر
دنیا کو کچھ تو اپنا پتہ دینا چاہیے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
چمن میں رنگِ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایہ کوئے یار سے اترا تو میں نے دیکھا
خمارِ مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دمِ سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
اُن امتوں کا ذکر جو راستوں میں مر گئیں
کر یاد اُن دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیر
وہ زر فشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگِ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصارِ آب میں
حاصل جہد مسلسل، مستقبل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں
تنگ کرتی ہے مکان میں خواہشِ سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں
اے منیر اب اس قدر خاموشیاں، یہ کیا ہوا
یہ صفت آئی کہاں سے پارہ سیماب میں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
وقت سے کہیو ذرا کم کم چلے
کون یاد آیا ہے آنسو تھم چلے
دم بخود کیوں ہیں خزاں کی سلطنت
کوئی جھونکا کوئی موج غم چلے
چار سو باجیں پلوں کی پائلیں
اس طرح رقاصۂ عالم چلے
دیر کیا ہے آنے والے موسمو
دن گزرتے جا رہے ہیں ہم چلے
کس کو فکر گنبدِ قصرِ حباب
آبجو پیہم چلے، پیہم چلے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
باد بہار غم میں وہ آرام بھی نہ تھا
وہ شوخ آج شام لبِ بام بھی نہ تھا
دردِ فراق ہی میں کٹی ساری زندگی
گرچہ ترا وصال بڑا کام بھی نہ تھا
رستے میں ایک بھولی ہوئی شکل دیکھ کر
آواز دی تو لب پہ کوئی نام بھی نہ تھا
کیوں دشتِ غم میں خاک اڑاتا رہا منیر
میں جو قتیلِ حسرتِ ناکام بھی نہ تھا
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
کس انوکھے دشت میں ہوائے غزالان ختن
یاد آتا ہے تمہیں بھی اب کبھی اپنا وطن
خوں رلاتی ہے مجھے اک اجنبی چہرے کی یاد
رات دن رہتا ہے آنکھوں میں وہی لعل یمن
عطر میں ڈوبی ہوئی کوئے جاناں کی ہوا
آہ اُس کا پیراہن اور اس کا صندل سا بدن
رات اب ڈھلنے لگی ہے بستیاں خاموش ہیں
تو مجھے سونے نہیں دیتی مرے جی کی جلن
یہ بھبھوکا لال مکھ ہے اس پرہ وش کا منیر
یا شعاعِ ماہ سے روشن گلابوں کا چمن
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
دیتی نہیں اماں جو زمین آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے
یوں تو رنگ ہے زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیر
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
ہیں آباد لاکھوں جہاں میرے دل میں
کبھی آؤ دامن کشاں میرے دل میں
اترتی ہے دھیرے سے راتوں کی چپ میں
ترے روپ کی کہکشاں میرے دل میں
ابھرتی ہیں راہوں سے کرنوں کی لہریں
سسکتی ہیں پرچھائیاں میرے دل میں
وہی نور کی بارشیں کاخ و کو پر
وہی جھٹپٹے کا سماں میرے دل میں
زمانے کے لب پر زمانے کی باتیں
مری دکھ بھری داستان مرے دل میں
کوئی کیا رہے گا جہان فنا میں
رہو تم رہو جاوداں میرے دل میں
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
دل کو ہجوم نکہت مہ سے لہو کئے
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثل موجِ ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
٭٭٭
-
Re: Munir Niazi's Collection
تھکی تھکی گلوں کی بو
بھٹک رہی ہے جو بہ جو
چھلک رہے ہیں چار سو
لبوں کے رس بھرے سبو
ہوا چلی تو چل پڑیں
کہانیاں سی کو بہ کو
لب مہ و نجوم پر
رکی رکی سی گفتگو
یہ اک خلائے دم بخود
یہ اک جہانِ آرزو
گئے دنوں کی روشنی
کہاں ہے تو، کہاں ہے تو
-
Re: Munir Niazi's Collection
ہوائے شوق کے رنگیں دیار جلنے لگے
ہوئی جو شام تو جھکڑ عجیب چلنے لگے
نشیب در کی مہک راستے سمجھانے لگی
فراز بام کے مہتاب دل میں ڈھلنے لگے
وہاں رہے تو کسی نے بھی ہنس کے بات نہ کی
چلے وطن سے تو سب یار ہاتھ ملنے لگے
ابھی ہے وقت چلو چل کے اس کو دیکھ آئیں
نہ جانے شمسِ رواں کب لہو اگلنے لگے
منیر پھول سے چہرے پہ اشک ڈھلکے ہیں
کہ جیسے لعل سم رنگ سے پگھلنے لگے
٭٭٭