مرا خلوص مرے یار، اک حقیقت ہے
تو اپنے آپ سے تھا بد گمان چھوڑ گیا
Printable View
مرا خلوص مرے یار، اک حقیقت ہے
تو اپنے آپ سے تھا بد گمان چھوڑ گیا
نوید گرچہ نئے دن کی دے گیا سورج
طویل رات مگر درمیان چھوڑ گیا
یہ اور بات مسائل میں گھِر گیا آسی
انا پرست، ترا آستان چھوڑ گیا
ہمارے ہاتھوں میں آ گئے ہیں اگرچہ تیشے
کسے کہیں اب تلاش کر لائے ہمتوں کو
اصول ہم نے بنا لیا ہے ضرورتوں کو
بھلائے بیٹھے ہیں اور ساری حقیقتوں کو
چھپائے پھرتے ہیں آپ لوگوں سے اپنے چہرے
جو آزمانے چلے تھے میری محبتوں کو
مجھے زمانے نے اور بھی غم عطا کئے ہیں
میں دل میں کب تک بسا رکھوں محض نفرتوں کو
چہار سو مکر و فن کی دنیا سجائی میں نے
میں طاقِ نسیاں میں رکھ چکا ہوں صداقتوں کو
قضا کی گھنٹی تو ایک مدت سے بج رہی ہے
جگائے کون اِن جدار جیسی سماعتوں کو
ابھی تو آسی کے ہاتھ پتوار پر جمے ہیں
ابھی تو بڑھنا ہے اور طوفاں کی شدتوں کو