مجھے ملنے وہ آئے تھے مرے ہاں
مگر میں سو رہا تھا، بے خبر تھا
Printable View
مجھے ملنے وہ آئے تھے مرے ہاں
مگر میں سو رہا تھا، بے خبر تھا
یہ کس نے ابر کو آواز دے دی
ابھی تازہ مرا زخمِ جگر تھا
جو تنکے آج بکھرے ہیں گلی میں
کبھی اک چہکتی چڑیا کا گھر تھا
وہ رہتا کس طرح پتھر فضا میں
کہ آسی آئنے جیسا بشر تھا
کبھی دنیا جہاں کے درد اپنانے کو جی چاہا ، سو کر گزرے
کبھی اپنے غموں کے ساتھ بہہ جانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
ہمارے دوستوں کو ہم سے یونہی بد گمانی ہے، کہانی ہے
بس اک دن تھا ہمارا ان کو سمجھانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
غرورِ پارسائی، حضرتِ ناصح ہمیں بھی تھا، تمہیں بھی تھا
تمہارے شہر میں تم جیسا ہو جانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
ہم اپنی بے بسی کا آپ ہی کرتے رہے چرچا، ہوئے تنہا
گناہِ نا گرفتہ کی سزا پانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
ہزاروں بار حرفِ مدعا لے کر گئے بھی ہم، مگر پیہم
حضورِ شہ سے خالی ہاتھ لوٹ آنے کو جی چاہا، سو کر گزرے
تیرا سر قابلِ معافی ہے؟
بات کر، قابلِ معافی ہے؟