خود کو ہم سے وُہ چھپائے کیا کیا
حشر اِس دل میں اُٹھائے کیا کیا
Printable View
خود کو ہم سے وُہ چھپائے کیا کیا
حشر اِس دل میں اُٹھائے کیا کیا
ہم مصوّر تجھے ٹھہرائیں کہ شاعر ماجدؔ
عکسِ جاناں ہی بہ ہر حرف نہ لایا کیجے
سامنا پھر نہ کسی لمحۂ گُستاخ سے ہو
دل میں سوئے ہوئے ارماں نہ جگایا کیجے
تشنگی جس سے کبھی دیدۂ باطن کی مِٹے
ایسا منظر بھی کبھی کوئی دکھایا کیجے
حاصلِ عمر ہے یہ حرف، میانِ لب و چشم
خواہش قرب نہ باتوں میں اُڑایا کیجے
یہ جنہیں مطلعِ انوار سمجھتے ہیں سبھی
ان لبوں سے کوئی مژدہ بھی سُنایا کیجے
سرد مہری سا بُرا وار نہ کیجے ہم پر
جانبِ غیر ہی یہ تِیر چلایا کیجے
حدّتِ خوں کے تقاضے نہ چھپایا کیجے
دِل میں جو بات ہے ہونٹوں پہ بھی لایا کیجے
اَب تو اپنا ہے ماجدؔ وُہ جس کے لئے
ہم بصد آرزو روز مرتے رہے
نشۂ قرب سے جیسے باہم دگر
جان و دل میں، رگوں میں اُترتے رہے