آسی اور کہے بھی کیا
کٹتی جاتی ہیں راتیں
Printable View
آسی اور کہے بھی کیا
کٹتی جاتی ہیں راتیں
ہم رہیں برسرِپیکار، ضروری تو نہیں
اپنا تماشا کریں اغیار، ضروری تو نہیں
گر مرے ساتھ چلیں تو بھی عنایت ہو گی
آپ کا ساتھ بھی، سرکار! ضروری تو نہیں
آپ کے طرزِ تکلم سے عیاں ہے سب کچھ
صاف لفظوں میں ہو اظہار، ضروری تو نہیں
آج ہم خود بھی شہادت پہ تلے بیٹھے ہیں
آپ کے ہاتھ میں تلوار ضروری تو نہیں
نقدِ جاں لے کے درِ یار پہ جانا ہو گا!
حسن پہنچے سرِ بازار، ضروری تو نہیں
دن چڑھے گا تو امیدوں کی ضیا دیکھیں گے
ہر مگر، سر بھی شبِ تار، ضروری تو نہیں
وہ تو اک عام سا شاعر ہے تمہارا آسی
اس کا ہر شعر ہو شہکار! ضروری تو نہیں!
سنا ہے رات گہنایا قمر تھا
مگر سویا ہوا سارا نگر تھا
وہ کیا تھا، چیختے تھے سنگ ریزے
ابھی جس شہر میں میرا گزر تھا