ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
Printable View
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
زہر اب ہے، مے ہے، انگبیں ہے
چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے
آ، کہ لکھا ہے جو لہومیں مرے
قصّۂ دردِ جاں سناؤں تُجھے
تُو ہے خوشبو تو میں ہوں موجِ صبا
آ، ترا مرتبہ دلاؤں تُجھے