یہ اذنِ طرب ترے لبوں پر
خوشبو کا کلی سے ہے نکلنا
Printable View
یہ اذنِ طرب ترے لبوں پر
خوشبو کا کلی سے ہے نکلنا
مشکل ہے بغیرِ قرب تیرے
اِس رُوح و بدن کا اب سنبھلنا
انمول ہیں سب گِلے یہ تیرے
یہ لعل لبوں سے پھر اُگلنا
ہیں شاخِ نظر کے یہ تقاضے
یہ برگ نہ ہاتھ سے مسلنا
چھپنا پسِ ابر چاند جیسا
لہروں سا سرِ نظر اُچھلنا
سورج سا نگاہ میں مچلنا
آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمر دار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِ انوار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگر دار ہو گئے