سادہ سا وُہ حرفِ اذن ترا اور مہلت پھر یکجائی کی
فرصت تو فقط اِک شب کی تھی پر دور بڑے آزار ہوئے
Printable View
سادہ سا وُہ حرفِ اذن ترا اور مہلت پھر یکجائی کی
فرصت تو فقط اِک شب کی تھی پر دور بڑے آزار ہوئے
کمیاب تھی ساعتِ قرب تری کیا کُچھ نہ ہُوا جب دَر آئی
ہم چاند بنے ہم مہر ہوئے ہم نُور بنے ہم نار ہوئے
کس اَن ہونی کے ہونے سے یُوں مطلعِ صدا انوار ہوئے
دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا، دُرِّ آب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میںبسے گلاب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
روکے نہ رُکے حباب سا وُہ