دور تھی از بسکہ راہ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
Printable View
دور تھی از بسکہ راہ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
دل میں سو لاکھ چٹکیاں لیں
دیکھا بس ہم نے پیار تیرا
گرچہ مے پینے سے کی توبہ ہے میں نے ساقی
بھول جاتا ہوں ولے تیری مدارات کے وقت
لے کے میں اوڑھوں ، بچھاؤں یا لپیٹوں کیا کروں؟
روکھی پھیکی ایسی سوکھی مہربانی آپ کی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا ہو کچھ بُرا
میری طرف کو دیکھئے! میں نازنیں سہی
منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضائقہ! انشا سے کیں سہی
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دھُن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
تھا ساعتِ فرنگی - دل چپ جو ہو رہا ہے
کیا جانئے کہ کس نے ہے اس کی کل کو توڑا
اپنا دلِ شگفتہ تالاب کا کنول تھا
افسوس تو نے ظالم! ایسے کنول کو توڑا
لینی ہے جنسِ دل تو ظالم! تو آج لے چُک
پڑ جائے گا وگرنہ پھر اس کاکل کو توڑا
گل سے زیادہ نازک جو دلبرانِ رعنا
ہیں بیکلی میں شبنم کے پیرہن کے اندر
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات تجھ کو کہنی ہے مجھ سے یہیں سہی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا ہو کچھ بُرا
میری طرف کو دیکھئے! میں نازنیں سہی
ہر وصلی سرکار پہ جدول ہے طلائی
اب آپ لگے رکھنے بڑی شان کے کاغذ
یاں و آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بِن اے نور بصر دُکھنے لگا
کیا خدائی ہے منڈانے لگے اب خط وہ لوگ
دیکھ کر ڈیوڑھی میں چھپ رہتے تھے جو نائی کو
گرچہ ہیں آبلہ پا دشت جنوں کے اے خضر
تو بھی تیار ہیں ہم مرحلہ پیمائی کو
گالی وہ اس کی ہو ہو کی آنکھیں دکھاتے وقت
ہے واقعی کہ پستہ و بادام سے لذیذ
نالے پہ میرے نالے کرنے لگی ہے اب تو
بلبل نے یہ نکالا نخرا نیا چمن میں
دیکھیں گے کہ جب آتے تھے آپ ایک ادا سے
ہو چیں بہ جبیں تکیہ بہ شمشیر کریں گے
کیڑے کے پر انگیا میں لگا رادھکا بولی
ہے کرشن یہ کاٹے گا مرے انگ میں کیڑا
چونکے یہ گرہ بند سے، سمجھے کہ در آیا
دارائی کے ایک نیفہ، خوش رنگ میں کیڑا
میں نے جو کہا آئیے مجھ پاس تو بولے
کیوں، کس لئے ، کس واسطے کیا کام ہمارا؟
جنوں یہ آپ کی دولت، ہوا حصول مجھے
کہ ننگ و نام کو چھوڑا ، یہ نام میں نے کیا
میکشی تم کرو غیروں سے بہم، تو، اپنے
گھونٹ لہو کے پیئے کیوں نہ غٹاغٹ عاشق
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی
ہر طور غرض، آپ سے ، ملنا ہے کم اچھا
دستِ جنوں سے اپنے گریبانِ صبر کو
اے عشق، تار تار کیا، ہم نے کیا کیا؟
جبکہ دیکھا کہ چھوڑتا ہی نہیں
تب تو ٹھہری کہ دیں گے بوسے دس
چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا
یاں وہ آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
میرے تمہارے رابطے دیکھے بہم تو رشک سے
نل تو پچھاڑ کھا گرا اس کی دمن نے غش کیا
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بن اے نور بصر دکھنے لگا
انشا سے نہ روٹھ، مت خفا ہو
ہے بندۂ جاں نثار تیرا
موسمِ عیش ہے یہ عہد جوانی، انشا
دور ہیں تیرے ابھی زہد و عبادات کے وقت
دو گلابی لا کے ساقی نے کہا انشا کو رات
زعفرانی میرا حصہ، ارغوانی آپ کی
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات تجھ کو کہنی ہے مجھ سے یہیں سہی