ایسے سے جو داغ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
Printable View
ایسے سے جو داغ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
چاند جب بھی دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
اور پھیلا دئیے کچھ اپنے کنارے ہم نے
اِک شخص سماں بدل گیا ہے
مٹی کا جہاں بدل گیا ہے
اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں
اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبُوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے
صاحب مہر وفا ارض و سما کیوں چپ ہیں
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہیں
ملتا جُلتا تھا حال میر کے ساتھ
میں بھی زندہ رہا ضمیر کے ساتھ
چہرہ ہوا میں اور میری تصویر ہوئے سب
میں لفظ ہوا مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب
وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا