شیخ جی کار و بار کرتے ہیں
اپنے سجدے شمار کرتے ہیں
Printable View
شیخ جی کار و بار کرتے ہیں
اپنے سجدے شمار کرتے ہیں
ہم جنہیں بولنا نہیں آتا
شاعری اختیار کرتے ہیں
مہرباں ہم تری عنایت کا
آج تک انتظار کرتے ہیں
ریگ زاروں میں بیٹھ کر ہم لوگ
آرزوئے بہار کرتے ہیں
چوٹ پر چوٹ کھائے جاتے ہیں
اور پھر اعتبار کرتے ہیں
اہلِ ادراک پر مرے اشعار
راز کچھ آشکار کرتے ہیں
یہ کسی راز داں کا تحفہ ہے
غیر کب ایسے وار کرتے ہیں
مجھ کو حیرت بھی ہے مسرت بھی
وہ مرا انتظار کرتے ہیں
میرے پاس آ کے لوگ تیرا ہی
ذکر کیوں بار بار کرتے ہیں
سوچ کر بات کیجئے صاحب
آپ، اور ہم سے پیار کرتے ہیں