میرے اندر تھا جو انساں مر گیا
موت کی اب کیا ضرورت اور ہے
Printable View
میرے اندر تھا جو انساں مر گیا
موت کی اب کیا ضرورت اور ہے
چھا رہے ہیں بے یقینی کے سحاب
آج بھی موسم کی نیت اور ہے
خوف کا ہر سر پہ سورج ہے رکھا
اس سے بڑھ کر کیا قیامت اور ہے
بات سچی تھی زباں پر آ گئی
ورنہ واعظ کی تو عادت اور ہے
رنج ہوتا ہے بچھڑنے پر ضرور
پھر ملیں تو اس میں راحت اور ہے
ہے تجھے خواہش وصالِ یار کی
منتظر رہنے میں لذت اور ہے
اب ستارے آنکھ سے گرتے نہیں
اب دلِ آسی کی حالت اور ہے
میرے گیتوں سے چاند رات گئی
وہ جو بڑھیا تھی، سوت کات گئی
کتنے تارے بنائے آنکھوں نے
آخرِ کار کٹ ہی رات گئی
بن گئی خامشی بھی افسانہ
تیرے گھر تک ہماری بات گئی